ڈاکٹر حمید اللہ کی نظر میں فرقہ واریت کا حل

سید نثار علی ترمذی

تعصب کے نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ متعصب شخص بہت سی علمی شخصیات کو فقط تعصب کی بنیاد پر نظر انداز کر دیتا ہے یوں وہ نہ صرف ایک علمی سرمایے سے بے بہرہ رہتا ہے وہیں وہ اپنی گھر کی واحد کھڑکی سے نظر آنے والی کائنات کو حتمی سمجھتا ہے جب کہ اس سے باہر تنگی داماں کے ازالے کا سامان کافی موجود تھا۔ آج مسلمانوں کے درمیان جو مسایٔل پیدا ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں ان کا ایک سبب یہی تعصب ہے۔ اپنے کو حق اور دوسرے کو باطل سمجھ کر ایک دوسرے کے علمی ذخیرے سے استفادہ نہیں کرتے بلکہ سنی سناتی باتوں سے بدگمانی کا پہاڑ کھڑا کرتے ہیں اور وراثت کی طرح نسلوں میں پروان چڑھاتے رہتے ہیں۔ اسی تعصب کا ایک شاخسانہ عالم اسلام کی ایک علمی شخصیت ڈاکٹر حمید اللہ کی ہے کہ جن کے افکار ایک دائرے کے اندر رہ گئے حالانکہ انھوں نے اپنی پوری زندگی تحقیق جستجو اور مستشرقین کے اعتراضات کے مدلل جواب دینے میں صرف کر دی۔زندگی بھر غیر مسلموںکے دلوں میں اسلام کی آبیاری کے علاوہ کچھ نہ کمایا۔ اللہ ان کی اس کاوش کو سرمایہ آخرت قرار دے ۔ آمین اسی کی دہائی میں ان کے چھپنے والی شہرت یافتہ کتاب ’’خطبات بہاولپور‘‘ سے ڈاکٹر حمید اللہ سے تعارف ہوا۔ یہ کتاب تو اسی دور میں پڑھ لی تھی مگروہی سرسری رویہ کہ جب بات ہوتی تو کہہ دیتا کہ یہ میں پڑھ چکا ہوں لیکن جب سے سنجیدہ مطالعہ شروغ کیا تو ’’خطبات بہاولپور‘‘ کا دو مرتبہ وقت سے مطالعہ کیا، اس کے علاوہ فیس بک پر ان سے منسوب کئی صفحات سے استفادہ کیا ۔ نیٹ پر موجود مواد کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی تحقیق کو ہر صاحب نظر کے زیر مطالعہ آنا چاہیے۔ زیر نظر مضمون میں ہم نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے علمی ذخائر میں چند موتی چنے ہیں جو وحدت امت کے لیے ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیںنیز فاضل محقق کا نکتہ نظر بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے 8 مارچ سے 20 مارچ 1980ء کے دوران اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں خطبات ارشاد فرمائے جو’’خطبات بہاولپور‘‘ کے عنوان سے شہرت پا گئے۔ پہلا خطبہ ’’تاریخ قرآن مجید‘‘ پر دیا گیا۔ ہر خطبہ کے بعد شرکاء کی جانب سے سوالات کیے گئے جن کے موصوف مقرر نے شافی جوابات دیے ۔ مذکورہ خطبہ کے آخر میں جو سوال پوچھے گئے ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جبرئیل امین علیہ اسلام نے نماز کا طریقہ بتلایا۔ نماز کے طریقے پر تحقیق کیا ہے؟ کون سا طریقہ نماز درست ہے؟ مختلف فرقوں مثلاً شیعہ اور سنی طریقوں میں فرق کیوں ہے؟ اس سوال کا جو جواب دیا گیا پیش قارئین ہے: میں نے یہ ذکر بلاذری کی کتاب ’’انساب الاشراف‘‘ میں پڑھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم ﷺکو وضو کرنا بھی سکھایا تھا، طہارت اور استنجے کا طریقہ بھی بتایا تھا اور نماز پڑھنا بھی سکھایا تھا۔ شیعہ اور سنی نمازوں میں جو فرق ہے میری دانست میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ مالکی مذہب کے لوگ، جو سنی ہیں وہ بھی ہاتھ چھوڑ کر اسی طرح نماز پڑھتے ہیں جس طرح شیعہ پڑھتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی اس طرح پڑھا اور کبھی دوسری طرح نماز پڑھی۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ایک ذاتی واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنے مذکورہ بیان کی تاثیر میں اضافہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اب سے کوئی 65 سال پہلے کا واقعہ ہے یا اس سے بھی زیادہ 76سال پہلے کا۔ میں پرائمری سکول میں تھا۔ ایک دن ہمارے ہیڈ ماسٹر کلاس میں آئے اور معلوم نہیں کہ کس بنا پر ہر ایک سے پوچھنے لگے، تمھارا نام کیا ہے؟ طلبا میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔پھر مسلمانوں سے پوچھا کہ تم کس فرقے سے ہو، اس میں شیعہ بھی تھے اور سنی بھی ۔ اس وقت انھوں نے ایک جملہ کہا جو آج تک میرے دل پر نقش ہے۔ میں اسے بھول نہیں سکا۔ انھوں نے کہا بچو! اس پر کبھی نہ جھگڑنا۔ شیعہ اور سنی بھائی بھائی ہیں۔ دونوں کو اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے اس قدر محبت تھی کہ ہر ایک نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر سنت کو قیامت تک محفوظ رکھے لہٰذا ان کی ایک سنت پر یہ لوگ عمل کررہے ہیں اور دوسری سنت پر یہ لوگ ۔ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی سنت پر عمل کررہے ہیں اسی پر میں اس کو ختم کرتا ہوں۔ (ڈاکٹر حمید اللہ، خطبات بہاولپور، ص 34، اشاعت چہارم 1992ء ناشر سروسز بک کلب، اسلام آباد) آج بھی ضرورت ہے کہ مصلحت الٰہی کو سمجھا جائے اور ایک دوسرے کے اختلاف کو بھی اس نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ تمام اعمال کا مرجع حضور اکرمؐ کی ذات اقدس ہے۔ آج کا انسان تو اس لحاظ سے معذور بھی ہے کہ وہ دور نبوت میں حاضر نہیں تھا ، اس تک جو بات حضور کی نسبت سے پہنچی اور اس پر اس کا دل مطمئن ہو گیا تو اس نے اسے اپنے ایمان کا حصہ بناتے ہوئے خلوص نیت سے عمل کیا۔ راستہ و منزل ایک ہے مگر انداز و طریقہ میںاختلاف ہے جو کہ فطری تقاضا ہے۔ آپ کا دوسرا خطبہ ’’تاریخ حدیث شریف‘‘ کے موضوع پرہے۔اس خطبے کے اختتام پر ایک سوال پوچھا گیا کہ مسلمانوں کی حدیث کی کتابوں میں اختلاف کیوں ہے۔ مثلاً اہل سنت کے نزدیک صحاح ستہ اور دوسری کتب ہیں لیکن اہل تشیع ان سب کے منکر ہیں اور ان کی اپنی حدیث کی کتب ہیں۔ اس اختلاف کی وجہ نیز ’’حق‘‘ کی وضاحت فرمائیں۔ آپ نے اس پر مفصل جواب دیا۔ ابتداء میں تو ایک اصولی بات کی جو اس طرح کے سوال کے جواب میں کہی جاسکتی ہے۔ یہ جواب کا حصہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ جذباتی ہونے کے بجائے مسئلہ کی گہرائی کو سمجھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: ’’آپ نے بڑا مشکل سوال کیا ہے۔ اگر ایک ہی فرقے کی چیزیں ہوں تو آدمی آسانی سے جواب دے سکتا ہے۔ جب مسئلہ فرقہ وارانہ بن جائے تو میں ہمیشہ اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں ایک فرقے سے تعلق رکھوں اور دوسرے فرقے پر اعتراض کروں خاص کر اس کی غیر موجودگی میں کہ اسے جواب کا موقع نہ ہو، تو یہ علمی نظر سے ٹھیک نہیں۔ ‘‘ اس مختصر جواب سے ہی آپ کے مسائل کو سلجھانے کی صلاحیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔میری نظر میں اس اصول کو معاشرے میں جاری ہونا چاہیے۔ آپ نے اس وضاحت کے بعد مفصل احادیث کی جمع آوری کے حالات، حقیقت اور تاریخ پر بات کی کہ حضورؐ اور خلفاء راشدہ کے دور میں جمع حدیث نہ ہوسکی۔لوگوں سے انفرادی طور پر مجموعے مرتب کیے۔ راویوں کی حفظ کی صلاحیت اور بیان کی قوت کے فرق کو بھی بیان کیا۔ اسی طرح حضورؐ اکرم کے مختلف مواقعوں کے لیے دیے گئے ارشادات واحکامات ،وقت کے تقاضے حکمت عملی سبھی کو بیان کیاجن کی وجہ سے اختلافات سامنے آئے۔ اسی طرح آپ نے بیان فرمایا کہ کسی راوی نے حدیث من و عن بیان کردی تو کسی نے حدیث کا مفہوم اپنے لفظوں میں بیان کر دیا۔ اس حوالے سے متعدد مثالیں بھی ذکر کیں۔آخر میں شیعہ سنی مسئلہ پر ایک جواب دیا کہ جودرج ذیل ہے: ’’اصولاً یہ بیان صحیح ہے کہ حدیث کی کتابوں میں جو سنیوں اور شیعوں کی حدیثیں ہیں۔ ان میں اختلاف ہوا لیکن عملاً ایسا نظر آتا ہے کہ یہ مفروضہ ہی ہے۔ راویوں کا بے شک فرق ہے۔ فرق صرف روایت کرنے والوں میں ہے۔ حدیث کے مندرجات میں فرق نہیں ہے۔ تضاد شاذ و نادر ہوگا۔مجھے اب تک ایسی کوئی خاص چیز ملی نہیں ملی جس میں یہ کہا جائے کہ شیعہ کتابوں میں ’’الف‘‘ کا حکم ہے اور سنی کتابوں میں اس کے برعکس ’’الف‘‘ کی ممانعت ہے۔ اختلافی باتیں جو ہمیں نظر آسکتی ہیں ان کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔سنی خاص کر حنفی، شافعی اور حنبلی نمازوں میں ہاتھوں کو سینے پر باندھتے ہیں اور ہمارے شیعہ بھائی ہاتھوں کو چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔ یہ اس لیے نہیں کہ حدیثوں میں اختلاف ہے بلکہ اس لیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض اوقات ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی بعض اوقات ہاتھ چھوڑ کر پڑھی۔ یہ بات آسانی سے سمجھ میںآتی ہے مثلاً فرض کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جنگ میں زخمی ہو گئے اور ہاتھ نہیں باندھ سکتے تھے۔ کیا کریں، ہاتھ چھوڑ کر ہی پڑھیںگے۔ ایک شخص نے دیکھا کہ رسولؐ اللہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر اسے موقع نہیں ملا کہ کچھ عرصہ بعد دیکھے کہ رسول اللہؐ دو بارہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہے ہیں تو وہ اسی سنت پر عمل کرے گا جس کو وہ دیکھ چکا ہے۔ یہ چیز ایک پہلو سے ہمارے لیے اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔۔۔۔یہاں وہ اپنے استاد کا واقعہ دہراتے ہیں جو پہلے ذکر ہو چکا ہے۔۔۔۔ اسی طرح جو اختلاف عمل میں نظر آتا ہے وہ حدیث کی غلطی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ رسولؐ اللہ کے دو مختلف زمانوں کے اعمال اور حرکتوں پر مبنی ہے۔ اس لیے ہمیں باہم ایک دوسرے کا متحمل ہونا چاہیے۔ حدیث کے اختلاف پر جھگڑے کی جگہ یہ فرض کرنا چاہیے کہ ایک خاص صورت حال میں رسولؐ اللہ نے یہ حکم دیا تھا تو دوسری صورت حال میں رسول اللہؐ نے دوسرا حکم دیا۔ ‘‘ ان دنوں حکومت حدود آرڈیننس کے ذریعہ قوانین نافذ کرنا چا رہی تھی جس میں ایک مسئلہ چور کے ہاتھ کاٹنے کا بھی تھا اخبارات و رسائل اس بحث سے بھرے پڑے تھے تو آپ نے اسی تناظر میں اس مثال کو بھی بطور ثبوت پیش کیا۔ ایک اور مثال لیجیے، جس کا آج کل اخباروں میں ذکر بھی آتا ہے یعنی ’’چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنا‘‘ سنیوں کے ہاتھ پنجے سے ہاتھ کاٹنے کا ذکر ملتا ہے اور شیعوں کے ہاں ہاتھ کی صرف انگلیاں کاٹنے کا ذکر ملتا ہے۔ مگر یہ خیال نہ کیجیے کہ حدیثوں کا اختلاف ہے بلکہ سنیوں کے ہاں حدیثوں میں بھی اس کا ذکر آیا ہے کہ ایک بار رسول اللہؐ نے صرف انگلیوں کو کٹوایا تھا۔ تو ان حالات میں بجائے اس کے اسے فرقہ وارنہ اختلاف قرار دیں ہم ایک دوسرے کا تحمل کریں حدیث پر اپنے فرقے کے بیان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں، جو ہماری نجات کے لیے کافی ہے۔ یہ نہیں کہ ان اختلافات کو دور کرنے کی لاحاصل کوشش کریں جو کبھی دور نہیں ہو سکتے۔(حوالہ بالا، ص 56تا 62) آپ کے آخری کلمات اتحاد بین المسلمین کے بنیادی اصول سے قرار پاتے ہیں کہ آپ اپنے مسلک پر گامزن رہیں اور دوسرے کے اختلاف کو برداشت کریں۔ جو اختلافات مابین مسالک موجود ہیں وہ ختم نہیں ہو سکتے بلکہ ان کی موجودگی میں تحمل کی راہ اپنانا ہوگی۔ مسالک کے معاملے میں کچھ ممکنہ حل ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تمام مسالک کسی ایک مسلک کو اپنا لیں جو ہو نہیں سکتا۔ یہ خیال تو خوبصورت ہے مگر کوئی کیسے برداشت کرے گا۔ قرآن و سنت کی جس تعبیر کو وہ صحیح سمجھتا ہے اسے ترک کردے۔ ظاہر ہے کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا۔ دوسرا حل یہ ہے کہ جس کی جانب ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم نے راہنمائی کی ہے کہ مسالک اپنے طریقے پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو تحمل کریں۔ حدیث کے موضوع پر دیے گئے خطبہ کے ضمن ڈاکٹر صاحب سے ایک سوال پوچھا گیا کہ امام مہدی ؑ کے بارے میں متعارض احادیث کا کیا حل ہے؟ اس سوال کے جواب میںآپ نے فرمایا یہ بھی مسالک کے درمیان مشترکہ نکتہ کی طرف اشارہ ہے: ’’مجھے علم نہیں کہ متعارض حدیثیں کونسی ہیں۔ حدیث کی کتابوں میں ذکر آیا ہے کہ آخری زمانے میں میری امت سے ایک شخص پیدا ہوگا۔ جس کا نام میرے ہی نام کے مطابق ہوگا یعنی ’’محمد‘‘ اس کے باپ کا نام میرے باپ ہی کے نام کے مطابق ہوگا یعنی ’’عبداللہ، اس کی ماں کا نام میری ماں ہی ماں کے نام کے مطابق ہوگا یعنی ’’آمنہ‘‘ اور وہ یہ یہ کام کرے گا۔ میرے علم میں ایسی کوئی حدیثیں نہیں ہیں کہ انھیں متعارض کہا جائے۔ البتہ حدیث میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ فلاں سال پیدا ہوں گے، کب ہوں گے؟ ہمیں کوئی پتا نہیں۔ جب بھی آئیں اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے تاکہ امام مہدی ؑ کے اچھے رفیق بننے کا شرف حاصل کرسکیں۔ ‘‘(حوالہ بالا، ص 65تا66) یعنی تمام مسلمانوںکو امام مہدیؑ کی آمد کا انتظار ہے اور ان کے قافلہ میں شریک ہونے کے لیے آمادہ ہونا چاہیے۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہم سب کی منزل اور رہبر ایک ہے تو ہمیں بھی ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر عالمی انقلاب مہدی ؑ کا استقبال کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ آپ کا ایک خطبہ ’’عہد نبوی میں نظام تعلیم‘‘ سے متعلق تھا جس کے بعد سوال و جواب کی نشست میں ایک سوال کیا گیا کہ ایک اللہ ایک رسول ایک قرآن اور ایک دین ہونے باوجود متعدد فرقے معرض وجود میں آگئے ہیں ، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے آپ فرمایا: ’’ویسے تو فرقہ بندی کا حل میرے نزدیک ایک ہی ہے کہ آپ دوسروں پر نہ جائیں اور اپنے آپ پر توجہ دیں۔ آپ خود فرقہ پرستی کے مرض میں مبتلا نہ ہوں۔ اپنے آپ کو صد فی صد درست اور دوسروں کو بالکل غلط نہ کہیں۔ دوسروں کو ان کے خدا کے سپرد کیجیے۔ وہ اپنے اعمال و عقائد کے بارے میں خود جواب دے لیں گے۔ فرقہ بندی اسی طرح ختم ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں کو لکھنا پڑھنا آتا ہے اس کے لیے اپنے فرائض معلوم کرنے کے لیے آج بہت آسانی سے وسائل میہا ہو جاتے ہیں۔ اسلام کی بنیادی چیزوں کے مطابق بے شمار کتابیں ہیں۔ قرآن مجید کے تراجم موجود ہیں۔ حدیثوں کے مجموعے موجود ہیں۔ میرے خیال میں یہ کام اب تو بہت آسانی سے ہو سکتا ہے کہ ہم فرقہ بندی میں مبتلا نہ ہوں اور آپس کی لڑائی سے محفوظ رہیں۔‘‘ (حوالہ بالا، ص 278) آپ نے ایک خطبہ’’عہد نبوی میں نظام مالبدوتقویم‘‘ کے عنوان سے بھی دیا۔ اس کے آخر میں ایک سوال پوچھا گیا کہ آپ نے گذشتہ تقاریر میں جس فرقہ بندی کی حمایت کی ہے وہ مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔ یہی فرقہ پرستی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کررہی ہیں۔ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا(آل عمران:103) (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ بازی نہ کرو) ایک اور جگہ پر آیا ہے کہ اَشِدَّآء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآء بَیْنَہُمْ ( 481:29) (کافروں کے لیے سخت اور آپس میں نرم)، یہ حکم ایمان لانے کے بعد ہر مسلمان پر نافذ ہوتا ہے تو ان آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا نقطہ نظر واضح کریں؟ آپ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’ میں سمجھتا ہوں ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے میں نے یہ کہا ہے کہ اگر رسولؐ اللہ نے کوئی کام مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے انجام دیا ہے اور ایک گروہ کے نزدیک مثلاً حنفی یا شافعی ایک عمل کی روایت کے مطابق ایک بات پر عمل ہوتا ہے تو ہمیں رواداری سے کام لینا چاہیے اور اس کو فرقہ واریت قرار نہ دیں کیونکہ دونوں رسول اللہؐ کی سنت پر مبنی ہیں۔ خیال فرمائیے کہ اگرآج حنفی کسی شافعی کے پیچھے نماز، یا شافعی حنفی کے پیچھے نماز پڑھنے سے اس بنا پر انکار کرے کہ اس کے امام کے بیان کردہ طریقے کے خلاف ورزی ہوئی تو اس کے کیا معنی ہیں؟ کہ اگر رسولؐ اللہ میرے فرقے کے امام کے طریق کے مطابق نہیں بلکہ کسی دوسرے فرقے کے طریقے کے مطابق کسی دن عمل فرما رہے ہوں تو میں خود رسول اللہؐ کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کرتا ہوں۔ کون مسلمان اس بات کا تصور بھی کر سکتا ہے کہ رسولؐ اللہ کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کرے۔ اس نقطۂ نظر سے غور فرمائیں تو آپ بھی اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ باہم رواداری زیادہ بہتر ہے کیونکہ ہم سے ہر شخص چاہتا ہے کہ رسولؐ اللہ کی سنت پر عمل کرے۔ رسولؐ اللہ کی سنت اگر ایک سے زیادہ طریقوں پر مشتمل رہی ہے تو بھی وہ آپؐ کا طرز عمل ہے۔ ہمیں اس کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔ ‘‘ (حوالہ بالا، ص 347۔348) مرحوم مولانا اسحاق کا بھی یہی نظریہ تھا کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے اور دیگر مسالک کو تحمل و رواداری سے قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ نمازوں کے الگ ہونے سے مساجد الگ ہوئیں ہیں جو بھی اتحاد امت کے لیے فکر کرتا ہے تو وہ اسی نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ تحمل و رواداری کو پیدا کیا جائے اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے ایک خطبہ ’’تاریخ فقہ‘‘ پر بھی دیا۔ اس کے اختتام پر ایک سوال کے جواب میں یوں وضاحت کی۔ اس دور میں فقہ حنفی اور فقہ جعفری کے نفاذ کی باتیں ہو رہی تھیں: ’’جب قانون میں اختلاف ہے تو ان حالات میں اگر ایک ہی قانون سارے فرقوں کے لوگوں کے لیے نافذ کیا جائے تو دوسرے فرقوں کے لیے دل شکنی کا باعث ہوگا۔فرض کیجیے کہ پاکستان میں جعفری فقہ نافذ کرنا چاہیں اور یہاں حنفیوں کی تعداد بہت بڑی اکثریت رکھتی ہے۔ تو اگر حنفی لوگ قبول کریں تو بے شک مجھے کوئی عذر نہیں، لیکن حنفی لوگ قبول نہ کرنا چاہیں تو انھیں مجبور کرنا ایک شورش پیدا کرنے کا وسیلہ بنے گا اور بالکل بے سود سی چیز ہوگی۔ وہ اس پرعمل نہیں کریں گے۔‘‘ اس اختلاف کے حل کے طور پر آپ نے ملک میں انجمن فقہاء، قائم کرنے کی تجویز دی تاکہ وہ اپنی رائے دیگر ممالک کے فقہاء کو بھی بھیجیں تاکہ اجتماعی حکم کی صورت نکل سکے۔ اس کے لیے آپ نے کئی شرائط بھی تجویز کیں۔ مفصل تجویز کے لیے حوالہ بالا صفحہ نمبر85۔86 کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرقہ بندی کا حل کچھ بیان فرمایا: ویسے فرقہ بندی کا حل میرے نزدیک ایک ہی ہے کہ آپ دوسروں پر نہ جائیں اور اپنے پر توجہ دیں۔ آپ خود فرقہ پرستی کے مرض میں مبتلا نہ ہوں، اپنے کو صد فی صد درست اور دوسروں کو بالکل غلط نہ کہیں۔ دوسروں کو ان کے خدا کے سپرد کیجیے۔ وہ اپنے اعمال اور عقائد کے بارے میں براہ راست خود جواب دے لیں گے۔ فرقہ بندی اسی طرح ختم ہو سکتی ہے۔ جن کو لکھنا پڑھنا آتا ہے ان کے لیے اپنے فرائض معلوم کرنے کے لیے آج بہت آسانی سے وسائل مہیا ہو جاتے ہیں۔