پاکستان سمیت پوری دنیا میں لشکر اسلام کے سردار قاسم سلیمانی اور ان کے عظیم المرتبت ساتھیوں کی برسی جس انداز سے منائی جا رہی ہے، وہ اہل فکر و نظر کے لیے نئے آفاق روشن کرتی ہے۔ پاکستان ہی نہیں غزہ کے مسلمانوں نے جس پیمانے پر شہید قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور دیگر شہداء کو نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حماس کے راہنماء اسماعیل ہانیہ نے تو ان کی شہادت کے موقع پر تہران میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھیں ’’شہید قدس‘‘ قرار دے دیا تھا اور فلسطینی عوام نے بھی دل و جان سے اس حقیقت کو عملی طور پر تسلیم کر لیا۔ فلسطین کی جہاد اسلامی کے راہنماء خالد البطش نے بھی سردار قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے جنرل سلیمانی کے بھیجے ہوئے میزائل تل ابیب پر مارے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جنرل سلیمانی کے لیے ’’شہید فلسطین و قدس‘‘ کا لقب ہر لحاظ سے درست ہے۔ وہ ہم سے زیادہ فلسطینی تھے۔ انھوں نے استعمار اور صہیونیت کے خلاف مزاحمت کی طاقت کو بڑھایا اور اب ہماری جنگ سرحدوں سے ماوراء ہوگی۔ عراق کے مختلف شہروں میں بھی شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی یاد میں اجتماعات منعقد کیے جا رہے ہیں۔ بڑی بڑی شاہراہوں پر ہر طرف دونوں شہداء کی تصاویر دکھائی دے رہی ہیں اور انھیں خراج محبت و عقیدت پیش کرنے کے سلسلے ہیں کہ تھمنے کو نہیں آتے۔ عراقی قیادت یہ کہ چکی ہے کہ ہم امریکہ سے اس بزدلانہ اقدام کا بدلہ لیں گے۔ اس سانحے کے فوری بعد عراقی پارلیمان نے اپنے ایک اجلاس میں ایک متفقہ قراردار منظور کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ امریکی افواج فی الفور سرزمین عراق سے نکل جائیں۔ اگرچہ اس کے بعد امریکہ نے عراق میں اپنے کئی ایک اڈے عراقی فوج کے حوالے کر دیئے ہیں اور اپنے فوجیوں کی تعداد بھی کم کر لی ہے، تاہم عراقی اس پر راضی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک امریکہ کا آخری فوجی بھی اس سرزمین سے نکل نہیں جاتا ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ امریکہ کے فوجی کاروانوں پر عراق میں حملے جاری ہیں۔ بغداد میں عراقیوں نے امریکہ کے خلاف اور اپنے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ملین مارچ کیا ہے، جس کا سب سے بڑا پیغام یہی تھا کہ امریکہ عراق سے نکل جائے۔ لبنان کی حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اس موقع پر اپنے خصوصی خطاب میں امریکہ سے انتقام کا عہد دہرایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مزاحمتی محاذ کے شہداء کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے ان کے بارے میں سکوت سے کام نہیں لینا چاہیئے، خود انہیں پہچاننے اور دوسروں کو بھی ان سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ ان کی فضیلت اور قربانیوں کا اعتراف کرنا اور ان کی قدردانی کرتے ہوئے ان کا احترام بجا لانا چاہیئے۔ یمن کی پاپولر موومنٹ انصار اللہ کے سربراہ سید عبد الملک الحوثی نے شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کو بے مثال خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے مختلف میدانوں اور محاذوں پر امتیازی کردار ادا کیا۔ قاسم سلیمانی اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر تھا جو کہ بصیرت، اخلاص، ایثار اور تواضع کے اعلیٰ درجوں پر فائز تھے۔ پاکستان بھر میں شہدائے قدس اور اسلامی استقامت کے شہید جرنیلوں کی پہلی برسی کے موقع پر پروگراموں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان شہداء کی شہادت کے فوری بعد بھی پاکستان سے ایک وفد نے ایران جا کر ایرانی راہنماؤں اور قوم کو ہدیہ تعزیت پیش کیا۔ ملی یکجہتی کونسل کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی سربراہی میں ایک وفد شہید سرادار قاسم سلیمانی کے گھر بھی گیا، جہاں ان کی بیٹی فاطمہ سلیمانی، ان کے داماد، بیٹے اور بیوہ موجود تھیں۔ اس گھر میں عجیب روحانی اور معنوی فضاء تھی۔ اس موقع پر شہید کی بیٹی فاطمہ سلیمانی نے ایک تاریخی جملہ کہا۔ انھوں نے کہا کہ میرے والد کی شہادت کا سب سے بڑا انتقام یہ ہے کہ مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں۔ شہادت کے فوری بعد پورے پاکستان میں اس واقعے پر ردعمل کے لیے مظاہروں اور اجتماعات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اہل قلم نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اردو میں ان کے بارے میں پہلی کتاب ’’گمنامی سے دلوں کی حکمرانی تک‘‘ کے عنوان سے توقیر کھرل نے مرتب کی۔ تجزیہ کاروں نے تجزیے کیے اور مقالات لکھے، یہ سلسلہ سال بھر جاری رہا۔ اس وقت تک اردو میں شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں شائع ہونے والی چار کتب راقم کی نظر سے گزر چکی ہیں۔ اہل سخن نے بھی شہید کی عظمت کو اپنے انداز سے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کی یاد میں مشاعروں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے۔ انھیں محبت کا خراج پیش کرنے والوں میں تمام مکاتب فکر کے علماء اور ادباء شامل ہیں۔ کرونا کے باوجود مذاکروں، سیمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ بعض اخبارات نے خصوصی ایڈیشن شائع کیے ہیں۔ مجلات میں بھی مضامین لکھے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا جو زیادہ تر امریکی استعمار کے ہاتھ میں ہے، اسے شہید قاسم کی شہادت کے بعد بھی ان کے نام سے ڈر لگتا ہے، لہذا جہاں بھی شہید کا نام سامنے آئے، عام طور پر اس اکاونٹ کو معطل کر دیتا ہے یا ہمیشہ کے لیے بند کر دیتا ہے۔ اس کے باوجود جتنا امکان اور گنجائش ہے، اس سے عاشقان جہاد و شہادت نے جس انداز سے استفادہ کیا ہے، وہ بے مثال ہے۔ پاکستانیوں کو شہید قاسم سلیمانی سے اس لیے بھی خصوصی محبت ہے کہ انھوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ اگر امریکہ نے پاکستان پر حملہ کیا تو میں خود پاک فوج کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف لڑوں گا اور اس راستے میں اپنا خون نچھاور کر دوں گا۔ وہ سارے عالم اسلام کے لیے یہی جذبہ رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ امریکہ مسلمانوں کے نسبتاً بڑے ممالک کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا ہے۔ داعش کو امریکہ نے اسی لیے میدان میں اتارا تھا، جس کا پہلا ہدف عراق اور شام تھے۔ امریکا داعش کی مدد سے عراق کو تین ٹکڑوں میں بانٹ دینا چاہتا تھا۔ شام کو بھی تقسیم کرنے کے لیے داعش اور دیگر شدت پسند تکفیری گروہوں کو سرگرم عمل کیا گیا۔ داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف شہید قاسم سلیمانی نے کامیاب حکمت عملی سے جنگ لڑی۔ آج عراق اور شام میں داعش شکست کھا چکی ہے اور یہ ممالک ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچ گئے ہیں تو اس کے پیچھے شہید قاسم سلیمانی کی تدابیر اور حکمت عملی کا بنیادی کردار ہے۔ اب تو یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ عراق کی رضاکار فورس الحشد الشعبی کی تشکیل کے لیے آیت اللہ سیستانی نے جو فتویٰ صادر فرمایا تھا، وہ شہید قاسم سلیمانی کے مشورے کا نتیجہ تھا۔ شہید یہ بات جانتے تھے کہ امریکہ، ایران، ترکی، افغانستان اور پاکستان کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردغان کے خلاف فوجی بغاوت کے پیچھے بھی امریکی ہاتھ تھا، اس بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے پہلا قدم سردار قاسم سلیمانی نے اٹھایا تھا۔ صدر اردغان کو اس صورتحال سے سب سے پہلے انھوں نے ہی آگاہ کیا تھا اور ان کے مشورے پر عوام کو باغیوں کے مقابلے میں نکلنے کا پیغام صدر اردغان کی طرف سے جاری کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں یہ بغاوت ناکام ہوگئی۔ ترکی کو توڑنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل کے پاس سب سے موثر ہتھیار کردستان کا تھا، جس کا آغاز عراق کے کرد علاقوں پر مشتمل ایک الگ اور مستقل ملک کے قیام سے ہونا تھا۔ جس کا کرد قیادت کی طرف سے اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ اسےشہید قاسم سلیمانی نے عراقی قیادت کے ساتھ مل کر ناکام بنا دیا۔ مسلمان ممالک کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کے مقابلے میں روس بھی مزید کمزور ہو جاتا، پہلے ہی سوویت یونین کو توڑ کر اس کے زیر نگیں رہنے والی کئی ریاستوں کو خود روس کے مقابلے میں کھڑا کیا جاچکا ہے۔ یہی وہ نقطہ تھا جو سردار قاسم سلیمانی نے روسی صدر کے سامنے پیش کیا، جس پر وہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے مقابل اترنے پر تیار ہوئے اور پھر جنگ کا پانسہ پلٹنے لگا۔ ابھی تک شہید قاسم سلیمانی کی اس حکمت عملی کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کو بھی امریکہ سے یہی خطرہ لاحق ہے اور امریکہ بلڈ بارڈرز کے اپنے نظریے میں پاکستان کے نقشے کو خاصا مختصر کرچکا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی سمجھتے تھے کہ پاکستان کی فوج کو مضبوط رہنا چاہیئے کیونکہ جن مسلم ممالک کی افواج کمزور ہوگئی ہیں، وہ آسانی سے استعماری اہداف کا نشانہ بن گئے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ امریکہ سعودی عرب کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سعودی عرب کا رویہ ایران کے بارے میں جو بھی رہا ہو، سردار قاسم سلیمانی کو امریکی منصوبوں کے حوالے سے تشویش تھی، جسے وہ مختلف مواقع پر کئی ایک سیاسی راہنماوں کے سامنے بیان کرچکے تھے۔ اس سلسلے میں عالم اسلام کے کئی ایک سیاسی راہنماوں کے بیانات منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان حقائق کو پیش نظر رکھا جائے تو پاکستانیوں کے لیے شہید قاسم سلیمانی کا پیغام بالکل واضح ہے۔ اول یہ کہ امریکہ پاکستان کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے، جو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے درپے ہے، ثانیاً پاکستان کی فوج کو کمزور کرنا دراصل استعماری طاقتوں کی سازشوں کو پورا کرنے کے مترادف ہے، ثالثاً پاکستانی عوام کو اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وطن اور فوج کا دفاع کرنا چاہیئے اور رابعاً عالم اسلام کے تمام مسائل سے پاکستان کو الگ رکھ کر نہیں دیکھا جاسکتا اور نہ پاکستان کو خود ان مسائل سے الگ رہنا چاہیئے۔ پاکستان اگر امریکہ اور اس کے حواریوں کے ساتھ میدان میں رہے گا تو وہ پاکستان کو وہیں تک پہنچائیں گے، جہاں تک پہنچانا ان کا ہدف ہے۔ پاکستان کی بقاء ہوش مندانہ اور جرات مندانہ فیصلوں سے وابستہ ہے۔ قاسم سلیمانی کی تحریک، تدبیر اور مکتب کا یہ پیغام اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ہم ان کے ایمان اور للہیت کو سامنے نہ رکھیں۔ پاکستان کو بچانے کے لیے یہی ایمان باللہ اور للہیت درکار ہے۔ اسلحہ بہت ضروری ہے، لیکن سب سے طاقتور اسلحہ جو ہم نے شہید سلیمانی جیسے اسلام کے بہادر اور مومن جرنیلوں سے ورثے میں پایا ہے، وہ ایمان اور شہادت کی آرزو ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، اسے مغرب کے تصور قومیت پر نہیں پرکھا جاسکتا۔ مصور پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی